جو اٹھ گیا ہے
زمانے ترا یقیں ہم سے
کوئی تو کام
ہؤا ہے غلط کہیں ہم سے
اب آئینوں میں
بھی ویرانیوں کے ڈیرے ہیں
کہ وقت چھین
چکا ہے سبھی حسیں ہم سے
ہے گر قصور
ہمارا اجاڑا ہے تجھ کو
تو بدلہ کم نہ
لیا تو نے بھی زمیں ہم سے
برائے نام محبت
کا نام لیتے ہیں
وگرنہ اس کا
کوئی واسطہ نہیں ہم سے
ترے سوا جو
ہمارا اگر ٹھکانہ نہیں
مکان تو بھی
کہاں پائے گا مکیں ہم سے
حسد نہ کیجئے
ان اڑتے ہوئے پرندوں سے
کہ ایک خوف نے
چھینی ہے یہ زمیں ہم سے
مٹانے والے مٹا
کر ہمیں ہیں شرمندہ
کہانی بن گئے
کردار دل نشیں ہم سے
۔۔۔۔۔
اتباف ابرک

0 تبصرے