رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے- ضیا جالندھری



Ghazal



 رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے


بھیگ جاتی ہیں اس امید پہ آنکھیں ہر شام

شاید اس رات وہ مہتاب لب جو آئے


ہم تری یاد سے کترا کے گزر جاتے مگر

راہ میں پھولوں کے لب سایوں کے گیسو آئے


وہی لب تشنگی اپنی وہی ترغیب سراب

دشت معلوم کی ہم آخری حد چھو آئے


مصلحت کوشئ احباب سے دم گھٹتا ہے

کسی جانب سے کوئی نعرۂ یاہو آئے


سینے ویران ہوئے انجمن آباد رہی

کتنے گل چہرہ گئے کتنے پری رو آئے


آزمائش کی گھڑی سے گزر آئے تو ضیاؔ


جشن غم جاری ہوا آنکھوں میں آنسو آئے


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے