فراز اب کوئی سودا کوئی جنوں بھی نہیں
مگر قرار سے دن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں
لب و دہن بھی ملا گفتگو کا فن بھی ملا
مگر جو دل پہ گزرتی ہے کہہ سکوں بھی نہیں
نہ جانے کیوں میری آنکھیں برسنے لگتی ہیں
جو سچ کہوں تو کچھ ایسا اداس ہوں بھی نہیں
میری زبان کی لکنت سے بدگمان نہ ہو
جو تو کہے تو تجھے عمر بھر ملو ں بھی نہیں
دکھوں کے ڈھیر لگے ہیں کہ لوگ بیٹھے ہیں
اسی دیار کا میں بھی ہوں اور ہوں بھی نہیں
فراز جیسے دیا قربت ہوا چاہے
وہ پاس آئے تو ممکن ہے میں رہوں بھی نہیں

0 تبصرے