جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو

Love poetry

   

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو

اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم


یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے

یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایہ ہے کہ تم ہو


اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں

میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو


 دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری

 دیکھو یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو 


یہ عمر گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں

ہر سانس میں مجھ کو یہی لگتا ہے کہ تم ہو


 ہر بزم میں موضوعِ سخن دل زدگان کا

اب کون ہے شیریں ہے کہ لیلیٰ ہے کہ تم


 اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں

 اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو


وہ وقت نہ آئے کہ دلِ زار بھی سوچے

اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو


آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل

یہ رسم بھی اس شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو


اے جانِ فراز اتنی بھی توفیق کسے تھی

ہم کو غمِ ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے