گل بھی کہلاتے ہو اور واقف خوشبو بھی نہیں
کیسے مانجھی ہو جیسے معرفت جو بھی نہیں
کس لیے شعلہ احساس کو بھڑکاتے ہو ؟
اب تو رونے کے لیے آنکھ میں آنسو بھی نہیں
یہ بجا ہے کہ نیا ہے میرا انداز نظر
اب وہ پہلا سا ترے حسن میں جادو بھی نہیں
میں جہاں ہوں وہاں سورج ہے سوا نیزے پر
صبح عارض بھی نہیں اور شب گیسو بھی نہیں
شکوہ یار میں کیوں اتنا غلو کرتے ہو
گو وہ خوش طبع نہیں اتنا تو بد خو بھی نہیں
حسن بھی ہاتھ میں زنجیر لیے پھرتا ہے
اور صحرائے نظر میں رم آہو بھی نہیں
حسن میں اور بھی مستور ہیں جلوے یہ فقط
سرخی لب بھی نہیں ہے ، خم آبرو بھی نہیں
بے اثر اس پہ اگر زور دلائل ہے جلال
زینہ فتح و ظفر قوت بازو بھی نہیں

0 تبصرے