جس کی قربت میں قرار بہت تھا
اس کا ملنا دشوار بہت تھا
جو میرے ہاتھوں کی لکیروں میں نہ تھا
اس شخص سے ہمیں پیار بہت تھا
دکھ کی ٹھیس ہمیں سہنا ہی تھی
ایک شخص پر ہمیں اعتبار بہت تھا
جس کو میرے گھر کا راستہ معلوم نہیں
اسی کا دل کو انتظار بہت تھا
صبح سے شام ہوئی اس کے ساتھ اکثر
باتوں میں ابھی اختصار بہت تھا
اسے زخموں کی خبر ابھی نہیں ہوئی
پہلی ہی چوٹوں کا خمار بہت تھا
نہ چاہتے ہوئے کاشف اسے بھلایا
کیا کرتے اس کا اصرار بہت تھا

0 تبصرے