زندگی آدھی ہے، ادھوری ہے
تیرا آنا بہت ضروری ہے
سامنے تو ہے لمحہ لمحہ مرے
اور زمیں آسماں کی دوری ہے
کوئی منطق ، کوئی دلیل نہیں
تو ضروری تو بس ضروری ہے
جیسے قسمت پہ اختیار نہیں
یہ محبت بھی لاشعوری ہے
کون سیکھا ہے صرف باتوں سے
سب کو اک حادثہ ضروری ہے
ایک بس تو رہا مری حسرت
اور ہر آرزو تو پوری ہے
غم میں کوئی خوشی ملا لیجے
یہ ملاوٹ بہت ضروری ہے
لکھتے لکھتے گذر گیا ابرک
داستاں آج بھی ادھوری ہے
اتباف ابرک

0 تبصرے