ٹوٹنے پر کوئی آئے تو پھر ایسا ٹوٹے
کہ جسے دیکھ کے ہر دیکھنے والا ٹوٹے
اپنے بکھرے ہوئےٹکروں کو سمیٹے کب تک
ایک انسان کی خاطر کوئی کتنا ٹوٹے
کوئی ٹکرا تیری آنکھ میں نہ چبھ جائے کہیں
دور ہو جا کے میرے خواب کا شیشہ ٹوٹے
رنج ہوتا ہے تو ایسا کہ بتائے نہ بنے
جب کسی اپنے کے باعث کوئی اپنا ٹوٹے
اتنی جلدی تو سنبھلنے کی توقع نہ کرو
وقت ہی کتنا ہوا ہے میرا سپنا ٹوٹے
ورنہ کب تک لیے پھرتا رہوں اس کو جواد
کوئی صورت ہو کہ امید سے رشتہ ٹوٹے
جواد شیخ

0 تبصرے