صرف اک تیرے لئے آنکھ یہ تر تھوڑی ہے
مجھ پہ کیا گزری ہے یہ تجھ کو خبر تھوڑی ہے
ڈر ہے جو مجھ کو بھلا تجھ کو وہ ڈر تھوڑی ہے
میرے کاندھوں پہ کوئی تیرا یہ ساتھ تھوڑی ہے ہے
اب تو بنتا ہے مرا گرنا ہر اک ٹھوکر پر
اب تری مجھ پہ وہ پہلی سی نظر تھوڑی ہے
تجھے نیندیں ہوں مبارک، ہو تری صبح حسین
تیرے خوابوں میں بھلا میرا گزر تھوڑی ہے
ساتھ چلتا ہے سدا موڑ جدائی والا
یہ محبت کوئی آسان سفر تھوڑی ہے
ہر مسافر کو ہے درکار گھنا سبزدرخت
مجھ سا بے سایہ و بے سود شجر تھوڑی ہے
کیسے نادان طبیبوں سے پڑا ہے پالا
جھاں ڈھونڈیں ہیں میرا دل وہ ادھر تھوڑی ہے
دور کیسے ہوں شکایات حسن والوں کی
میری قدرت میں بھلا شمس و مر تھوڑی ہیں
عشق نے مار دیا مار دیا مار دیا
شور مت کیجیے کوئی تازہ خبر تھوڑی ہے
شہر لٹتا ہے لٹے میری بلا سے صاحب
ابھی آباد کوئی میرا یہ گھر تھوڑی ہے
رنج، غم ،دردوالم، ہنس کے اٹھا لیتے ہیں
ہم نے اک اس کے سوا سیکھنا ہنر تھوڑی ہے
دست و پتھر سے بھلا کیسی شکایت ابرک
کوچہ جاناں کو یہ غیر کا سر تھوڑی ہے
اتباف ابرک

0 تبصرے