سب کو دو چار قدم چل کے ٹھہر جانا ہے
غم وہ صحرا تمنا کہ بگولے کی طرح
جس کو منزل نہ ملی اس کو بکھر جانا ہے
تیری نظروں میں میرے درد کی قیمت کیا تھی
میرے دامن نے تو آنسو کو گہر جانا ہے
اب کے بچھڑے تو نہ پہچان سکہں گے چہرے
میری چاہت تیرے پندار کو مر جانا ہے
جانے والے کو نہ روکو کہ بھرم رہ جائے
تم پکارو بھی تو کب اس کو ٹھہر جانا ہے
تیز سورج میں چلے آتے ہیں میری جانب
دوستوں نے مجھے صحرا کا شجر جانا ہے
ذندگی کو بھی ترے در سے بھکاری کی طرح
ایک پل کے لیے رکنا ہے گز جانا ہے
اپنی افسردہ مزاجی کا برا ہو کہ فراز
واقعہ کوئی بھی ہو آنکھ کو بھر جانا ہے

0 تبصرے