Breaking

بدھ، 23 ستمبر، 2020

میں نے آغاز سے انجام دفر جانا ہے


میں نے آغاز سے انجام سفر جانا ہے

میں نے آغاز سے انجام سفر جانا ہے
سب کو دو چار قدم چل کے ٹھہر جانا ہے

غم وہ صحرا تمنا کہ بگولے کی طرح 
جس کو منزل نہ ملی اس کو بکھر جانا ہے

تیری نظروں میں میرے درد کی قیمت کیا تھی
میرے دامن نے تو آنسو کو گہر جانا ہے

اب کے بچھڑے تو نہ پہچان سکہں گے چہرے
میری چاہت تیرے پندار کو مر جانا ہے

جانے والے کو نہ روکو کہ بھرم رہ جائے 
تم پکارو بھی تو کب اس کو ٹھہر جانا ہے

تیز سورج میں چلے آتے ہیں میری جانب
دوستوں نے مجھے صحرا کا شجر جانا ہے

ذندگی کو بھی ترے در سے بھکاری کی طرح 
ایک پل کے لیے رکنا ہے گز جانا ہے

اپنی افسردہ مزاجی کا برا ہو کہ فراز 
واقعہ کوئی بھی ہو آنکھ کو بھر جانا ہے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں