تیری بِساط بھلا کیا ھے، کبھی سوچ اے ناداں

  آج کا اِنسان


تیری بِساط بھلا کیا ھے، کبھی سوچ اے ناداں
لِباسِ آدمِیّت میں ھے چُھپا ھُوا گویا تُو شیطاں

کبھی خُوشبو خُوشبو تھا یہ تیرے دم قدم سے
آج لَہُو لَہُو ھے تیرے وُجُود سے، یہ سارا جہاں

نغمے گُونجتے تھے پیار کے کبھی اِس زَمِیں پر
تیرے ظُلم سے بچا نہیں، اب کوئی بھی مکاں

اَحسنِ تَقوِیم کا مِلا اعزاز تُجھے رَبِ کریم سے
صد حَیف سارا عالَم ھے تیری دھشت سے لرزاں

ماں باپ کے سائے تلے، رھتے تھے جو پُرسُکُوں
چُھین لِیا اُن معصُوم بچوں کے سر سے آسماں

کب آزاد ھو گا تُو، اِبلیس لَعِین کے چُنگل سے
کب تَلَک رھے گی جاری بَربَرِیّت کی یہ داستاں

قوموں کی عِزت تھی جِن کے دَم قدم سے
وہ مائیں بہنیں، وہ بیٹیاں ھُوئِیں بے آبرو یہاں

نہ بیٹی رھی محفوظ تُم سے نہ رھی ماں کوئی
اے اِبنِ آدم، تُو تو بِنتِ حَوّا کا بنا تھا پاسباں

اب کس کو جا کر سُنائیں ھم اپنی فریاد ساجن
کہ عزتوں کے رکھوالے ھُوئے جاتے ھیں بدزباں


عبدُالرّؤف ساجن



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے