قہقوں کے شور میں سسکیاں دبا لیں..


قہقوں کے شور میں سسکیاں دبا لیں
 سجائیں محفلیں اور تنہائیاں بسا لیں

شکوہ تو ضرور ہے مجھے اس سے بہت
 کہ سونپ کر لمحے خود صدیاں بِتا لیں

ہنرِ کوزہ گری کی تھیں جو ماہر انگلیاں
 انہی انگلیوں نے درد کی مورتیاں بنا لیں

کہاں کس کو خیال تمھارا ھی آئے گا بھلا
 چھوڑ کر اسے جو یہ ہیں کشتیاں بنا لیں

اک رات چپکے سے اس کہ حجرہِ دل میں 
 جھانکا تو اس نے سبھی پنہایاں چھپا لیں

اک اسی کو تو یہ غضب ادا آتی ہے فیصل
 مسکرا کر سب ھی درد کی دہائیاں مٹا لیں

میں اپنے ماہ ومہر کے دائروں میں رہا بس
 اور اس نے ہجر کی بھی خوشیاں منا لیں

کہاں چھپ سکا ماتھے پہ رقم درد کا باب
اس نے مگر وقت کی پرچھائیاں مہکا لیں

فیصل ملک!!!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے