خواب و خیال ہوا برگ و بار کا موسم
بچھڑ گیا تیرے صورت بہار کا موسم
کئی رُتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم
وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لوٹ آے
سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم
پیام آیا ہے پھر ایک سرو قامت کا
میرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم
وہ آگ ہے کہ مری پور پور جلتی ہے
مرے بدن کو مِلا ہے چنار کا موسم
خواب رفاقتوں کے نے خوشنما ہے مگر
گزر چکا ہے تیرے اعتبار کا موسم
ہوا چلی تو نئی بارش بھی ساتھ آئیں
زمین کے چہرے پہ آیا نکھار کا موسم
لہو میں گُونج رہا ہے پکار کا موسم
قدم رکھے میری خوشبو کہ گھر کو لوٹ آے
کوئی بتائے مجھے کوئے یار کا موسم
وہ روز آ کے مجھے اپنا پیار پہنائے
میرا غور ہے بیلے کے ہار کا موسم
تیرے طریق محبت پہ بار ہا سوچا
یہ جبر تھا کہ تیرے اختیار کا موسم

0 تبصرے