چلو اک بار پھر سے
دہراتے ہیں فسانے کو
انجام بدل لیتے ہیں
راہیں پلٹ لیتے ہیں
تم اب کی بار بھی
اسی جگہ ملنا
جہاں پہ ہم ملے تھے
اسی راہ پہ چلنا
وہ ہی ہو پھر سے موسم
وہ ہی خوبصورت شامیں
وہ نغمگی فضاؤں میں
وہی لمحے ملن کے
مگر اس بار ہم
غضب کی چال چلیں گے
مات دے جائیں گے قسمت کو
کہ ایسا کھیل کھیلیں گے
ہمارے کھیل کے سبھی گھر
محبت سے روشن ہوں گے
کہیں اندھیرا آنا بھی چاھے
آ نہ پائے گا اب کہ
وصال ہو گا وصال فقط
آ نہ.پائے گا ہجر
آؤ ...میرا ہاتھ تھامو
اب دور گگن پہ چلتےہیں
اس کہانی کو پھر سے
نئے سِرے سے لکھتے ہیں
فیصل ملک

0 تبصرے