رات کے آخری پہروں میں
زرد شگن کے گھیروں میں
خود کو ماضی برد کیا
آباد پھر سے درد کیا
سناٹا لوری سُناتا تھا
من کو بے حد بھاتا تھا
بوجھل سانسوں میں کوئی
اپنا آپ بُھلاتا تھا
دُور کوئی گھڑیال بجا
گُزرا کل لو آج بجا
دھیمی سی سرگوشی ہوئی
بدن میں انوکھا راگ بجا
مُشکل تھی وہ رات مگر
جھُوٹی تھی ہر بات مگر
وہ لہجہ غضب کا لہجہ تھا
ہمیں ہو گئی پھر شہ مات مگر
یہ جوگ بجوگ سب دھوکہ ہے
کون کس کے روگ روتا ہے
کل دیکھا تھا پھر درپن میں
وہ نہیں تھا روز جو ہوتا ہے
دیکھ ادھوری میری چال نہ کر
میرے زخموں پر ملال نہ کر
رکھ شہہ رگ پہ ہاتھ کڑاا
میرے درد کا تُو خیال نہُ کر
میرے محسن میرے شاہ پیا
میرے اندر بنا کوئی راہ پیا
مُجھ پریت لگن کے منڈپ میں
ہو دو وقتوں کا بیاہ پیا
کوئی اُجلی صبح پھیر ادھر
ہو جل تھل کا پیڑ ادھر
دشت کی سُرخ زمینیں سُن
دیکھ من کی ریگ کا ڈھیر ادھر
من کی لاشیں چُنتا جا
مایا راگ بس دُھنتا جا
کوئی اشک بہا ندامت کے
کُچھ اپنا کل بھی سُنتا جا
فیصل ملک!

0 تبصرے