Harf e Taza Nai Khushbo Mein Likha Chahta Hai

Harf e Taza Nai Khushbo Mein Likha Chahta Hai

حرف تازہ نئی  خوشبو میں لکھا چاہتا ہے

باب اک اور  محبت کا کھلا چاہتا ہے


ایک لمحے کی  توجہ نہیں حاصل اُس کی

اور یہ دل کہ اُسے حد سے سوا چاہتا ہے


ایک حجابِ تہہِ اقرار ہے  مانع ورنہ

گل کو معلوم ہے  کیا دست  صبا چاہتا ہے


ریت ہی ریت ہے اس دل میں مسافر میرے

اور یہ صحرا تیرا نقشِ کفِ پا چاہتا ہے


یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہو گی

اور کچھ روز کہ  وہ شوخ کھلا جاتا ہے


رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن

رات کے ہاتھ میں اب کوئی دیا چاہتا ہے


تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی

اور تیری بزم سےاب کوئی اُ ٹھا چاہتا ہے


پروین شاکر


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے