دیوار نہیں در نہیں سایہ بھی نہیں ہے

urdu poetry

 دیوار نہیں در نہیں سایہ بھی نہیں ہے

اس پر وہ گیا ، لوٹ کے یا بھی نہیں ہے


اس طور سے مصروف عمل زیست ہے میری

کھویا  بھی  نہیں اس  کو تو پایا  بھی نہیں


تو راہ میری بھٹکا تو بھٹکا بھلا کیسے

رستے میں کوئی موڑ تو آیا بھی نہیں ہے


ہم  نے ہی بنا رکھے ہیں افسانے ہزاروں

اس نے تو کبھی ہنس کے بلایا بھی نہیں ہے


اک شخص نے چھوڑا ہے نگر جب سے یہ دل کا

اپنا تو یہاں کیا ہوا ،  پرایا بھی نہیں ہے


نالاں ہیں  سبھی کیوں یہاں آئینے سے ،  ہم سے

ہم نے تو ابھی دیکھا ، دیکھایا بھی نہیں ہے 


تاوان جو مانگے ہے رہائی کے عوٖض تو

اتنا تو میری  زیست  کمایا  بھی  نہیں  ہے


اتباف ابرک


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے