کبھی تو شہر ستمگراں میں
کوئی محبت شناس آئے
وہ جس کی آنکھوں میں نور جھلکے
لبوں پے چاہت کی باس آئے
چلے تو خوشیوں کے شوخ جذ بے
ہماری آنکھوں میں موجزن تھے
مگر نہ پوچھو واپسی کے
سفر سے کتنے اداس تھے
ہمارے ہاتھوں مین اک دیا تھا
ہوا نے وہ بھی بجا دیا
ہیں کس قدر بدنصیب ہم بھی
ہمیں اجالے نہ راس آئے
ہماری جانب سے شہر والوں میں
یہ منادی کرا دو، محسن
جسے طلب ہو متاع غم کی
وہ ہم فقیروں کے پاس آئے

0 تبصرے