کو با کو پھیل گئی بات شناسائی کی

 


کو با  کو پھیل  گئی  بات  شناسائی  کی 

اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی 


کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا اس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی 


وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا 

بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی 


تیرا پہلو، تیرے دل کی طرح آباد ریے 

تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی


اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا

روح  تک آ گئی،  تاثیر مسیحائی  کی 


اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتاہے 

جاگ اٹھتی ہے عجب خواہش انگڑائی کی 


                   پروین شاکر




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے