Breaking

پیر، 7 ستمبر، 2020

کو با کو پھیل گئی بات شناسائی کی

 


کو با  کو پھیل  گئی  بات  شناسائی  کی 

اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی 


کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا اس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی 


وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا 

بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی 


تیرا پہلو، تیرے دل کی طرح آباد ریے 

تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی


اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا

روح  تک آ گئی،  تاثیر مسیحائی  کی 


اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتاہے 

جاگ اٹھتی ہے عجب خواہش انگڑائی کی 


                   پروین شاکر




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں