گمنام دریاؤں میں سفر کیوں نہیں کرتے
اجرے ہوۓ لوگوں پہ نظر کیوں نہیں کرتے
یہ خوب یہ خوشیوں بھرے ہنستے ہوۓ یہ خواب
یہ خواب مرے دل پہ اثر کیوں نہیں کرتے
خواہش کے ، طمانیت احساس کے پنچھی
کچھ روز میرے گھر میں بسر کیوں نہیں کرتے
صبحوں سے ہیں مغلوب تو پھر زعم ہے کیسا
راتوں پہ ہیں غالب تو سحر کیوں نہیں کرتے
یہ لوگ مسلسل ہیں جو ایک خوف کے قیدی
اس خوف کی دیوار میں در کیوں نہیں کرتے
کیوں آپ اُ ٹھاتے ہو اداسی کے یہ اسباب
شاموں کے غلاموں کو خبر کیوں نہیں کرتے
فرحت عباس شاہ

0 تبصرے