Breaking

اتوار، 13 ستمبر، 2020

گمنام دریاؤں میں سفر کیوں نہیں کرتے

 


گمنام دریاؤں میں سفر کیوں نہیں کرتے

اجرے ہوۓ لوگوں پہ نظر کیوں نہیں کرتے


یہ خوب یہ خوشیوں بھرے ہنستے ہوۓ یہ خواب 

یہ خواب مرے دل پہ اثر کیوں نہیں کرتے


خواہش کے ، طمانیت احساس کے پنچھی 

کچھ روز  میرے گھر میں بسر کیوں نہیں کرتے 


صبحوں سے ہیں مغلوب تو پھر زعم ہے کیسا 

راتوں پہ ہیں غالب تو سحر کیوں نہیں کرتے


یہ لوگ مسلسل ہیں جو ایک خوف کے قیدی

اس خوف کی دیوار میں در کیوں نہیں کرتے


کیوں آپ اُ ٹھاتے ہو اداسی کے یہ اسباب 

شاموں کے غلاموں کو خبر کیوں نہیں کرتے


فرحت عباس شاہ




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں