Breaking

پیر، 31 اگست، 2020

اک وہی مہرباں نہیں ہوتا

اک  وہی مہرباں  نہیں  ہوتا


 اک  وہی مہرباں  نہیں  ہوتا

جس کے بن یہ جہاں نہیں ہوتا


آگ ایسی کہ راکھ راکھ بدن 

ظرف اتنا ، دھواں نہیں ہوتا


جانے کیا بھیڑ ہے مر ے اندر

لہو تک اب رواں نہیں ہوتا


صرف ہم تب تلک نبھائیں گے

جان کا جب تک زیاں نہیں ہوتا


تم پہ گزی ہے تم کہو ابرک

ہم سے آھے بیاں نہیں ہوتا


اتباف ابرک

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں