اک وہی مہرباں نہیں ہوتا
جس کے بن یہ جہاں نہیں ہوتا
آگ ایسی کہ راکھ راکھ بدن
ظرف اتنا ، دھواں نہیں ہوتا
جانے کیا بھیڑ ہے مر ے اندر
لہو تک اب رواں نہیں ہوتا
صرف ہم تب تلک نبھائیں گے
جان کا جب تک زیاں نہیں ہوتا
تم پہ گزی ہے تم کہو ابرک
ہم سے آھے بیاں نہیں ہوتا
اتباف ابرک

0 تبصرے