تم نے جو بھی کیا ضروری تھا
میرا یوں سوچنا ضروری تھا
بن کئے مان لیں خطائیں سب
کیوں! تجھے روکنا ضروری تھا
ہم کو وہ بے وفا ضروری تھا
کیوں میسر کے زیرِ دام نہیں
کیوں ہمیں دوسرا ضروری تھا
کان کھینچے کوئی محبت کے
آگ میں جھونکنا ضروری تھا
اٹھ رہی ہیں وہیں پہ دیواریں
جس جگہ راستہ ضروری تھا
کبھی قربت میں ہی محبت تھی
آج کل فاصلہ ضروری تھا
سوچ تم ہو خیال خواب ہو تم
ساتھ یہ قافلہ ضروری تھا
آسماں اور زمیں میں کیا تھا جو
اس قدر فاصلہ ضروری تھا
.png)
0 تبصرے