اُداسیوں کا یہ موسم بدل بھی سکتا تھا




 اُداسیوں کا یہ موسم بدل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا تو میرے ساتھ چل بھی سکتا تھا

وہ شخص تو نے جس کو چھوڑنے کی جلدی کی
تیرے مزاج کے سانچے میں ڈھل بھی سکتا تھا

وہ جلدباز خفا ہو کر چل دیا ورنہ
تنازعات کا کوئی حل نکل بھی سکتا تھا

اَنا نے ہاتھ اُٹھانے نہیں دیا ورنہ
میری دُعا سے وہ پتھر پگھل بھی سکتا تھا

تمام عمر تیرا منتظر رہا محسن
یہ اور بات ہے کہ رستہ بدل بھی سکتا تھا

محسن نقوی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے