منظر فضا دہر میں سارا علی کا ہے
جس سمت دیکھتا ہوں نظارہ علی کا ہے
مرحب دو نیم ہے سر خیبر پڑا ہوا
اٹھنے کا یہ اب نہیں کہ مارا علی کا ہے
قل کا جمال مظہر قل میں ہے
عکس ریز گھوڑے پہ ہیں حسین نظارہ علی کا ہے
اصحابی کالنجوم کا ارشاد بھی بجا
سب سے مگر بلند ستارا علی کا ہے
ہم فقر مست چاہنے والے علی کے ہیں
دل پر ہمارے صرف اجارا علی کا ہے
اہل حوس کی لقمہ تر پر رہی نظر
نان جویں پہ صرف گزارا علی کا ہے
تم دخل دے رہے ہو عقیدت کے باغ میں
دیکھو معاملہ یہ ہمارا علی کا ہے
اے عرض پاک تجھ مبارک کہ تیرے پاس
پرچم نبی کا چاند ستارا علی کا ہے
آثار پڑھ کے مہدی دوراں کے یوں لگا
جیسے ظہور وہ بھی دوبارہ علی کا ہے
تو کیا ہے اور کیا ہے تیرے علم کی بساط
تجھ پر کرم نصیر یہ سارا علی کا ہے
(سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں