شبنم ہے کہ دھوکہ ہے کہ جھرنا ہے کہ تم ہو
دل دشت میں اک پیاس تماشہ ہے کہ تم ہو
اک لفظ میں بھٹکا ہوا شاعر ہے کہ میں ہوں
اک غیب سے آیا ہوا مصرع ہے کہ تم ہو
دروازہ بھی جیسے میری دحڑکن سے جڑا ہے
دستک ہی بتاتی ہے پرایا ہے کہ تم ہو
اک دھوپ سے الجھا ہوا سایہ ہے کہ میں ہو
اک شام کے ہونے کا بھروسہ ہے کہ تم ہو
میں ہوں بھی تو لگتا ہے کہ جیسے میں نہیں ہوں
تم ہو بھی نہیں اور یہ لگتا ہے کہ تم ہو
احمد سلمان


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں