سرِ صحرا مسافر کو ستارا یاد رہتا ہے
میں چلتا ہوں مجھےچہرہ تمہارا یاد رہتا ہے
تمہارا ظرف ہے محبت تمہیں بھول جاتی ہے
ہمیں تو جس نے ہنس کر بھی پکارا یاد رہتا ہے
محبت اورنفرت اور تلخی اور شیرینی
کسی نے کس طرح کا پھول مارا یاد رہتا ہے
محبت میں جو ڈوبا ہو اسے ساحل سے کیا لینا
کسے اس بحر میں جا کر کنارا یاد رہتا ہے
بہت لہروں کو پکڑا ڈوبنے والے کے ہاتھوں نے
یہی بس ایک دریا کا نظارہ یاد رہتا ہے
صدائیں ایک سی ، یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
زرا سا مختلف جس نے پکارا یاد رہتا ہے
میں کس تیزی سے زندہ ہوں ، میں ہی تو بھول جاتا ہوں
نہیں آنا ہے دینا میں دوبارہ یاد رہتا ہے
عدیم ہاشمی

0 تبصرے