Breaking

بدھ، 24 فروری، 2016

ہر چند کے کوئی غم نہیں ہے




ہر چند کے کوئی غم نہیں ہے
بیتابیِ روح کم نہیں ہے

اس راہ سے کیا ملے گی منزل
جس راہ میں پیچ و خم نہیں ہے

فطرت پے ہیں خامیوں کے الزام 
انسان کی آنکھ نم نہیں ہے

بکھرے ہوۓ پھول دیکھتا ہوں
ہنسنے کی سزا بھی کم نہیں ہے

اے دردِ طلب سے آبدیدہ
غم کا تو علاج غم نہیں ہے

آنسو بھی تری ہنسی نے چھینے
اب کوئی شریکِ غم نہیں ہے

اے لالہ و گل کے نام لیوا
کانٹوں میں بھی حسن کم نہیں ہے

اب تجھ سے حیات ہے معنون
اب فکرِ رہِ عدم نہیں ہے

احسان براۓ تلخی  زیست
احساس کا زہر کم نہیں ہے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں