ہر چند کے کوئی غم نہیں ہے
بیتابیِ روح کم نہیں ہے
اس راہ سے کیا ملے گی منزل
جس راہ میں پیچ و خم نہیں ہے
فطرت پے ہیں خامیوں کے الزام
انسان کی آنکھ نم نہیں ہے
بکھرے ہوۓ پھول دیکھتا ہوں
ہنسنے کی سزا بھی کم نہیں ہے
اے دردِ طلب سے آبدیدہ
غم کا تو علاج غم نہیں ہے
آنسو بھی تری ہنسی نے چھینے
اب کوئی شریکِ غم نہیں ہے
اے لالہ و گل کے نام لیوا
کانٹوں میں بھی حسن کم نہیں ہے
اب تجھ سے حیات ہے معنون
اب فکرِ رہِ عدم نہیں ہے
احسان براۓ تلخی زیست
احساس کا زہر کم نہیں ہے

0 تبصرے