Breaking

جمعرات، 10 دسمبر، 2020

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا



آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا 

اتنا مانوس نہ ہو خلوتِ غم سے اپنی
 تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا

تم سرِ راہِ وفا دیکھتے رہ جاؤ گے
اور وہ بامِ رفاقت سے اتر جائے گا

زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تیری دہلیز پہ دھر جائے گا

ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

احمد فراز


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں