میرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کے ہوا نہ دے
یہ چراغ پھر بھی چراغ ہے کہیں تیرا ہاتھ جلا نہ دے
نئے دور کے نئے خواب ہیں نئے موسموں کے گلاب ہیں
یہ محبتوں کے چراغ ہیں انہیں نفراتوں کی ہوا نہ دے
زرا دیکھ چاند کی پتیوں نے بکھر بکھر کے تمام شب
تیرا نام لکھا ہے ریت پر کوئی لہر آ کے مٹا نہ دے
میں اداسیاں نہ سجا سکوں کبھی جسم و جاں کے مزار پر
نہ دیے جلے میری آنکھ میں مجھے اتنی سخت سزا نہ دے
میرے ساتھ چلنے کے شوق میں بڑی دھوپ سر پہ اُٹھائے گا
تیرا ناک نقشہ ہے موم کا کہیں غم کی آگ گھلا نہ دے
میں غزل کی شبنمی آنکھ سے یہ دکھوں کے پھول چنا کروں
مری سلطنت میرا فن رہے مجھے تاج و تخت خدا نہ دے
بشر بدر

0 تبصرے