اب کے رُت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون
زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون
دیکھنا سب رقص بسمل میں مگن ہو جائیں گے
جس طرف سے تیر آئے گا ادھر دیکھے گا کون
زخم جتنے بھی تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون
وہ ہوس ہو یا وفا ہو بات محرومی کی ہے
لوگ تو پھل پھول دیکھیں گے شجر دیکھے گا کون
میری آوازوں کے سائے میرے بام و در پہ ہیں
میرے لفظوں میں اتر کر میرا گھر دیکھے گا کون
ہم چراغ شب ہی جب ٹھہرے تو پھر کیا سوچنا
رات تھی کس کا مقدر اور سحر دیکھے گا کون
آ فصیل شہر سے دیکھیں غنیم شہر کو
شہر جلتا ہوتو تجھ کو بام پر دیکھے گا کون
ہر کوئی اپنی ہوا میں مست پھرتا ہے فراز
شہر ناپرساں میں تیری چشم تر دیکھے گا کون

0 تبصرے