ہر کوئی جاتی ہوئی رت کا اشارہ جانے...

 


ہر کوئی جاتی ہوئی رت کا اشارہ جانے

گل نہ جانے بھی تو کیا، باغ تو سارا جانے


کس کو بتلائیں کے آشوب محبت کیا ہے

جس پہ گزری ہو وہی حال ہمارا جانے


جان نکلی کسی بسمل کی نہ سورج نکلا

بجھ گیا کیوں شب ہجراں کا ستارا جانے


جو بھی ملتا ہے وہ ہم سے ہی گلہ کرتا ہے

کوئی  تو صورت حالات   خدارا  جانے


دوست احباب تو رہ رہ کے گلے ملتے ہیں 

کس نے خنجر میرے سینے میں اتارا، جانے


ؔتجھ  سے  برھ کرکوئی نادان نہ ہو گا فراز

دشمن جاں کو بھی تو جاں سے پیارا جانے


احمد فراز




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے