کیا اثاثہ ہے جسے کھو بھی نہیں سکتے ہیں - غزل - اتباف ابرک



کیا اثاثہ ہے جسے کھو بھی نہیں سکتے ہیں - غزل - اتباف ابرک




کیا اثاثہ ہے جسے کھو بھی نہیں سکتے ہیں
ہم ترے ہو کے ترے ہو بھی نہیں سکتے ہیں

سب کی نظریں مرے دامن پہ جمی رہتی ہیں
داغ دل کش ہے بہت دھو بھی نہیں سکتے ہیں

درد اتنا کہ پہاڑوں کو بھی تلپٹ کر دے
اور انا ایسی کہ ہم رو بھی نہیں سکتے ہیں

ٹوٹ جاتے ہیں جہاں جاگتا ہوں، خواب سبھی
یعنی اب طے ہؤا ہم سو بھی نہیں سکتے ہیں

ایسا خود رو ہے شجر توبہ محبت ابرک
اس کو من چاہی جگہ بو بھی نہیں سکتے ہیں



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے